Sacrificing Our TODAY for the World's TOMORROW
FATA is "Federally Administered Tribal Area" of Pakistan; consisting of 7 Agencies and 6 F.Rs; with a 27000 Sq Km area and 4.5 m population.
MYTH: FATA is the HUB of militancy, terrorism and unrest in Afghanistan.
REALITY: FATA is the worst "VICTIM of Militancy”. Thousands of Civilians dead & injured; Hundreds of Schools destroyed; Thousands of homes raised to ground; 40% population displaced from homes.

Friday, June 3, 2011

'STATE without a MIND':Obituary of Baloch Professor Saba Dashtiari - By Wusatullah Khan سوری دشتیاری صاحب

بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy

سوری دشتیاری صاحب

مر تو سب ہی جائیں گے لیکن کچھ لوگ توقع سے زیادہ زندہ رہ جاتے ہیں۔ صبا دشتیاری کی موت بھی تاخیر سے ہوئی۔
انہیں جس نے بھی مارا عجلت میں نہیں مارا۔انہیں قاتل نے سدھرنے کے لئے کافی وقت دیا لیکن صبا دشتیاری چونکہ جذباتی آدمی تھے، دماغ سے زیادہ دل سے کام لیتے تھے اس لئے انہیں یہ سامنے کی بات سمجھ میں نہ آسکی کہ وہ دی گئی مہلت سے فائدہ اٹھائیں، دائرے کے اندر رہ کر کھیلیں ۔بلوچوں کے حقوق کے لئے منہ سے آگ اگلنے کا کرتب بند کریں۔
یونیورسٹیاں یقیناً آزاد خیالی کی پرورش گاہیں ہوتی ہیں لیکن یہ ایک مغربی تصور ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں آزاد خیالی اور شرک میں بال برابر فرق ہے۔ لہذا اگر یہ شوق پورا کرنا ہے تو کسی ایسی جگہ جائیے جہاں سماج اور ریاست میں ہر بات برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت ہو۔ ایک طے شدہ نظریاتی سرزمین میں ایسی لگژری برداشت نہیں ہو سکتی۔ یونیورسٹی میں اپنے شاگردوں کو صرف وہ نصاب پڑھانے تک خود کو محدود رکھیں جو ریاست نے متعین کردیا ہے۔
صبا دشتیاری کو قاتل نے یہ بھی موقع دیا کہ وہ سرکاری ملازمت کے اصول و قواعد و ضوابط کا پاس کریں۔اپنی ریٹائرمنٹ بینفٹس، ترقی اور پنشن کا خیال کریں۔اگر حقوق بازی کے کھیل میں کودنے کا اتنا ہی شوق ہے تو یونیورسٹی کی جان چھوڑ دیں اور پھر کھل کر جو چاہے بولنے کا خطرہ مول لیں۔
دشتیاری صاحب یقیناً آپ نے بلوچ ادب، تاریخ اور فلسفے کو متعارف کرانے اور اسے اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کرنے میں جو علمی کردار ادا کیا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔آخر ان موضوعات پر آپ کی چوبیس سے زائد کتابیں بھی تو اسی ریاست میں چھپی ہیں جسے آپ اپنی قوم کے ارمانوں اور حقوق کا قاتل سمجھتے ہیں۔
ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ نے بلوچی لٹریچر، تاریخ اور ثقافت پر ہر زبان میں ہونے والے کام کو ڈیڑھ لاکھ کتابوں اور دستاویزات پر مشتمل ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری کی شکل دے دی ہے جو دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد لائبریری ہے۔ اگر آپ بقیہ زندگی اسی پر توجہ دینے میں کھپا دیتے تو یہ بھی کوئی کم اہم خدمت نہ ہوتی۔
صبا صاحب ! آپ اتنے بڑے آدمی تھے ۔کم ازکم اپنے بڑے پن کا ہی خیال کرلیتے۔کیا اتنے بڑے آدمی کو زیب دیتا تھا کہ وہ اپنے طلباء کے ساتھ کینٹین میں بیٹھ کر گپ لگائے، سیاسی بھوک ہڑتالوں میں شریک ہو، جلسوں سے خطاب کرتا پھرے، مظاہروں میں شامل ہو، عام لوگوں کی طرح نعرے لگائے۔
توکیا ہر بات کہنے کے لئے ہوتی ہے، تو کیا ہر بات کرنے کے لئے ہوتی ہے۔آپ کہتے تھے کہ سچ بولنے اور سچ کا سامنا کرنے کی جرات ہونی چاہئیے۔تو کیا ہر سچ بولنے کے لئے ہوتا ہے۔اگر یہ عادت اتنی ہی اچھی ہے تو آپ کے ساتھ کے اساتذہ اور ساتھی اس عادت کو کیوں نہیں اپناتے۔تو کیا انہیں وہ چیزیں نظر نہیں آتیں جو آپ کو دکھائی دے رہی تھیں۔
صبا صاحب ! آپ نے تو تاریخ گھول کر پی رکھی تھی ۔کیا آپ کو نہیں معلوم تھا کہ یونانیوں نے سقراط کے ساتھ کیا کیا، نازیوں نے اپنے نظریے سے اختلاف کرنے والے دانشوروں کو کیسے غائب کیا، چینی اور روسی کیمونسٹوں نے نام نہاد لبرل اساتذہ کا کیا حشر کیا، امریکہ میں میکارتھی ازم کے زمانے میں کھلی سوچ رکھنے والوں کو کہاں کہاں چھپنے پر مجبور ہونا پڑا۔
چلئے یہ تو بہت دور کی مثالیں ہیں۔ہو سکتا ہے آپ کے لئے اجنبی ہوں۔ لیکن کیا آپ یہ بھی بھول گئے تھے کہ پچیس مارچ سنہ انیس سو اکہتر کو ڈھاکہ میں جب آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوا تھا تو سب سے پہلے ڈھاکہ یونیورسٹی کے نام نہاد ملک دشمن سوچ رکھنے والے اساتذہ اور ٹیچرز کو گولیوں سے بھونا گیا تھا۔ کاش آپ ڈھاکہ کے قومی عجائب گھر میں آج بھی رکھے ہوئے اس خون آلود قالین کو ہی جا کر دیکھ لیتے جس پر علم و دانش کی لاشیں پھڑکائی گئی تھیں۔
آپ یہ کہہ کر ہمیں بہت لمبے عرصے تک فریب نہیں دے سکتے تھے کہ ہم تو محض پڑھنے لکھنے والے لوگ ہیں۔ہمارا مسلح جدوجہد کرنے یا بندوق اٹھانے والوں سے کیا لینا دینا۔آپ ان سے زیادہ خطرناک لوگ ہیں۔آپ جیسے لوگ عام آدمی کا دماغ مسلح کرتے ہیں۔لہذا جس طرح سانپ کو مارنے کے لئے اس کا سر کچلا جاتا ہے اسی طرح قوموں کو مارنے کے لئے ان کا دماغ بننے والے لوگوں کو کچلنا بھی جائز ہے۔ دماغ ختم ، سوچ ختم ، آدمی ختم، مسئلہ ختم۔
صبا دشتیاری صاحب کاش آپ کو یہ باتیں سمجھ میں آ جاتیں۔یہ ٹھیک ہے کہ آپ بہت بڑے دانشور اور استاد تھے لیکن شائد آپ میں کامن سنس کی کمی تھی۔اور یہ صرف آپ کا مسئلہ نہیں ہے ہر بڑے آدمی میں کامن سنس کی کمی ہوتی ہے اور وہ اس کمی کے سبب موقع محل دیکھ کر بات کرنے کی صلاحیت اور مصلحت کے معنی سے عاری ہو جاتا ہے۔
صبا صاحب آپ کی موت پر ہمیں بھی دکھ ہے۔لیکن یہ دکھ آپ کے زندہ رہنے کے دکھ سے پھر بھی کم ہے۔ بحرحال اپنی موت کو ہماری مجبوری سمجھ کر معاف کردیجئے گا۔آخر ہمیں ریاست بھی تو چلانی ہے۔

....................
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................

We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.

No comments:

Post a Comment