بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
کیا آپ یہی چاہتے ہیں؟
اس دن بھی جماعت پنجم کے ماسٹر لطیف صاحب پڑھاتے پڑھاتے حسبِ معمول بہت دور نکل گئے ۔ انہوں نے تاریخِ پاکستان کا مضمون ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیا اور انسانی درندگی پر شروع ہوگئے۔ پھرماسٹر لطیف نے اپنے تھیلے سے ایک اخباری مضمون کا تراشہ نکالا۔
مضمون جنگِ ویتنام کے بارے میں تھا اور اس میں چھپی تصویر میں ایک ویتنامی پولیس افسر ایک امریکی فوجی کی موجودگی میں ایک مشکوک مقامی نوجوان کو کنپٹی کے قریب ریوالور رکھ کر گولی مار رہا تھا۔اس نوجوان نے موت سے لمحہ بھر پہلے شتر مرغ کی طرح اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔یہ تصویر دیکھتے ہی سب بچوں کے چہرے سپاٹ ہوگئے۔ماسٹر لطیف صاحب اگلے آدھے گھنٹے تک کچھ بولتے رہے لیکن ہماری قوتِ سماعت یہ تصویر اغوا کر کے دور لے جاچکی تھی۔
پھر ہم بڑے ہوتے گئے، پڑھتے چلے گئے، دیکھتے چلے گئے، سنتے چلے گئے۔
بہت دکھ ہوتا تھا جب لاطینی امریکہ سے ہولناک خبریں آتی تھیں۔ جیسے کولمبیا اور گوئٹے مالا میں سرکاری ڈیتھ سکواڈز کسی بھی راہ چلتے کو مشکوک سمجھ کر گولی مارنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
ارجنٹینا میں حکمران جنتا کے کارندوں نے ہیلی کاپٹرز میں زندہ لوگوں کو بٹھا کر انہیں بحراوقیانوس میں پھینک دیا۔ چلی میں پنوشے حکومت نے ساڑھے تین ہزار افراد کو غائب کردیا۔برازیل کی پولیس سٹریٹ چلڈرنز کو اغوا کرکے جنگل میں گولی مار کے پھینک دیتی ہے۔
پھر ہم اور بڑے ہوتے چلے گئے اور بے حس ہوتے چلے گئے۔
کیا ہوا اگر جنوبی افریقہ کی گوری پولیس کالوں کو لاتیں مار مار کر سڑک پر ہی ہلاک کردیتی ہے۔ کتنی بری بات ہے کہ اسرائیلی سپاہیوں نے مغربی کنارے پر ایک آٹھ سالہ بچے کے سر میں گولی مار دی۔
کتنے دکھ کی خبر ہے کہ سوویت کمانڈوز نے قندھار کے قریب پورا گاؤں مسمار کردیا اور مکین ملبے تلے دب گئے۔ کیا یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ نیشا پور میں بارہ سیاسی مخالفین کو پاسداران نے پکڑ کر کرینوں سے لٹکا دیا۔
یہ صدام حسین پر کیا پاگل پن سوار ہوا ہے جس نے ہلہ قصبے کی مین شاہراہ کے کنارے جتنے مکانات تھے ان میں رہنے والوں کو قتل کی سازش میں شریک سمجھ کر ایک ہی قبر میں اتار دیا۔
توبہ توبہ۔۔۔صومالیہ میں کس قدر لاقانونیت ہے ۔پورا ملک پرائیویٹ ملیشیاز کے قبضے میں ہے۔خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔
پھر ہم اور بڑے ہوتے چلے گئے اور بے حسی کی حدود سے بھی نکل گئے۔
بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے یہ آپس کی لڑائی ہے۔چند مٹھی بھر شرپسند بیرونی طاقتوں کی شہ پر کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں، اکثریت آج بھی محبِ وطن ہے۔
پھر ہم اور بڑے ہوتے چلے گئے اور جھوٹ بولنا بھی چھوڑ دیا۔
کوئٹہ کے خروٹ آباد میں پانچ روسی شہری مارے گئے تو ہم کیا کریں۔ ایف سی سے پوچھیں۔نہیں اس میں ایف سی ملوث نہیں ، پولیس سے پوچھیں۔نہیں اس میں نا تو ایف سی والے قصوروار ہیں اور نا ہی پولیس ۔یہ غیرملکی گاڑی میں نہ صرف مشکوک انداز میں بیٹھے تھے بلکہ گاڑی سے اتر کر بھی مشکوک انداز میں بھاگے تھے۔
بتائیے آپ ہماری جگہ ہوتے تو ان مشکوکوں سے کیا سلوک کرتے۔
ہمیں کیا پتہ صحافی سلیم شہزاد کو کس نے مارا۔ یہ آپ کو ہر واردات کے پیچھے آئی ایس آئی ہی کیوں نظر آتی ہے، کچھ تو خدا کا خوف کریں۔
اور یہ جو کراچی میں نوجوان سرفراز شاہ مارا گیا ہے یہ دراصل ایک جرائم پیشہ لڑکا تھا جورینجرز کے اس سپاہی سے بندوق چھیننے کی کوشش کررہا تھا جس نے اسے مارا۔رہی بات کیمرے کی تو آج کے کمپیوٹر دور میں تو آپ جیسی چاہیں فلم بنا لیں سکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے۔
لیبیا کے کرنل قذافی نے اقتدار نہ چھوڑنے کے جو جواز اپنے عوام کے آگے رکھے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میرے بعد یہ ملک پاکستان بن جائے گا۔کیا آپ یہی چاہتے ہیں؟
دیکھتے ہی دیکھتے بات اور یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ماسٹر لطیف صاحب کی گفتگو کی طرح ۔۔۔
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................
We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment