Sacrificing Our TODAY for the World's TOMORROW
FATA is "Federally Administered Tribal Area" of Pakistan; consisting of 7 Agencies and 6 F.Rs; with a 27000 Sq Km area and 4.5 m population.
MYTH: FATA is the HUB of militancy, terrorism and unrest in Afghanistan.
REALITY: FATA is the worst "VICTIM of Militancy”. Thousands of Civilians dead & injured; Hundreds of Schools destroyed; Thousands of homes raised to ground; 40% population displaced from homes.

Wednesday, April 13, 2011

Mass Migration from Tirah, Bara - 13 April 2011

 تیراہ، باڑہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی
صوبہ خیبر پختونخواہ میں نوشہرہ کے قریب قائم جلوزئی کیمپ سے باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے متاثرین کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
تاہم باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے بیشتر متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ واپس اپنے علاقوں کو نہیں جانا چاہتے۔
دوسری جانب خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ اور باڑہ سے بڑی تعداد میں لوگ کیمپ میں پہنچ رہے ہیں۔


پشاور میں ہمارے نامہ نگار عزیز اللہ خان نے بتایا کہ جلوزئی کیمپ میں موجود افغان کمشنریٹ کے عہدیدار نور اکبر کا کہنا ہے کہ پیر کو چوبیس خاندان بسوں میں مہمند ایجنسی کے ان علاقوں کو روانہ ہو گئے ہیں جن علاقوں میں اب امن قائم ہے۔
مہمند اور باجوڑ کے علاقوں میں اب بھی آپریشن جاری ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت ان لوگوں کو رضا کارانہ طور پر بھیج رہی ہے جن علاقوں میں اب حالات بہتر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس کیمپ میں باجوڑ کے کوئی ساڑھے تیرہ ہزار متاثرہ خاندان ہیں جبکہ مہمند ایجنسی کے پندرہ سو خاندان آباد ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس کیمپ میں باجوڑ کے کوئی ساڑھے تیرہ ہزار متاثرہ خاندان ہیں جبکہ مہمند ایجنسی کے پندرہ سو خاندان آباد ہیں۔
جلوزئی کیمپ آج بھی وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں ہر طرف کیمپ ہی کیمپ نظر آتے ہیں۔ جلوزئی کیمپ کے فیز نمبر آٹھ کے ارد گرد اور ادھر فیز نمبر ایک اور دو میں بڑی تعداد میں باجوڑ مہمند اور خیبر ایجنسی کے متاثرین آباد ہیں۔
باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک استاد عبدالرؤف نے کہا کہ لوگ اپنے علاقوں کو نہیں جانا چاہتے کیونکہ وہاں اکثر لوگوں کے مکان تباہ ہو چکے ہیں۔
ایک اور استاد فضل محمود نے کہا کہ باجوڑ میں عصر کے بعد کرفیو لگا دیا جاتا ہے اور اگر کوئی بیمار بھی ہو تو ہسپتال نہیں جا سکتا۔ ’ساری زمینیں بنجر ہیں اور لشکروں کی حکومت ہے جو لوگوں کو تنگ کرتے ہیں کہ اپنے گاؤں کی چوکیداری کریں۔‘
کیمپ میں بیشتر لوگ مزدوری کرنے صبح جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں جس سے ان کا گزر بسر ہوتا ہے۔
کیمپ کے اندر اور باہر لوگوں نے پکوڑوں اور دیگر اشیاء کی چھوٹی چھوٹی دکانیں قائم کر رکھی ہیں جبکہ کیمپ کے اندر سکول ہیں اور انھیں متاثرین کو ہی ان سکولوں میں ملازمت ملی ہوئی ہے۔
ان لوگوں کے بقول یہاں کم از کم امن ہے بچوں کے ساتھ رہ سکتے ہیں اپنے علاقوں میں صرف خوف ہے اور کچھ نہیں ہے۔


...........

We Hope You find the links helpful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests. 
With Regards, 
"FATA Awareness Initiative" Team.

No comments:

Post a Comment