بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
کس کے لیے ؟
پاکستان جن غیر یقینی حالات میں وجود میں آیا ان سے اسٹیبلشمنٹ نے اور کوئی سبق لیا یا نہ لیا ہو یہ ضرور سیکھا کہ زندہ رہنے کے لیے کم ازکم عسکری لحاظ سے ناقابلِ تسخیر ہونا اشد ضروری ہے۔ چاہے کالے چور سے ہی کیوں نہ مدد لینی پڑ جائے۔
اس نفسیات کے تحت اکتوبر سینتالیس میں جناح صاحب کی زندگی میں ہی اول سفیرِ پاکستان برائے امریکہ ایم اے ایچ اصفہانی اور چند فوجی افسروں پر مشتمل وفد نے واشنگٹن یاترا میں ازخود پیش کش کی کہ اگر پاکستان کو دو نئے ڈویژن کھڑے کرنے کے لیے یہ یہ اسلحہ اور یہ یہ ٹریننگ سہولتیں دی جائیں تو اس کے عوض پاکستان سوویت یونین کے مقابلے میں مغرب کا عسکری گھوڑا بننے کو تیار ہے۔ پنٹاگون اور محمکہ خارجہ کے اہلکاروں نے اس فرمائشی فہرست کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔
وہ دن اور آج کا دن۔امریکہ نے پاکستان کے لاشعور میں پیوست بھارتی خطرے کو خوب خوب اپنے علاقائی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا اور پاکستان کو پہلے جنگِ کوریا ، پھر بغداد پیکٹ ، پھر سیٹو ، سینٹو پھر جنگِ افغانستان اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مجرے میں طرح طرح سے نچوایا اور بطور نذرانہ تھوڑے سے ہتھیار اور اقتصادی امدادی ڈالر بھی نچھاور کرتا رہا۔لیکن جب جب بھارت سے براہ راست جنگ ہوئی امریکی چھتری کسی کام نہ آئی۔پاکستان نفسیاتی عدم تحفظ کے صحرا میں سرگرداں ہی رہا۔
پھر کسی نے مشورہ دیا کہ ایٹم بم نہیں تو کچھ نہیں۔
وہ ایک بم کہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار خطروں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
لہذا گھاس کھالی اور ایٹم بم بھی بنا لیا۔لیکن کرگل کی لڑائی نے یہ بات بھی واضح کردی کہ ایٹم بم استعمال کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ تو خود اپنے آپ میں ایک مسئلہ ہے۔ایک ایسا ملک جو ابتر امن و امان اور اقتصادی زوال جیسے غنڈوں سے گھری ہوئی اس دوشیزہ کی طرح ہوتا ہے جس کے گلے میں پڑے جوہری زیور پر بھی گلی کا ہر ایلا میلا آوازے کسنے لگتا ہے۔
پھر یہ کہا گیا کہ جوہری ہتھیار روایتی ہتھیاروں کا متبادل نہیں ہوسکتے۔لہذا ضروری جوہری ڈیٹرنس حاصل کرنے کے باوجود آج بھی روایتی اسلحے پر اتنا ہی خرچہ ہورہا ہے جتنا خرچہ بم بنانے سے پہلے تھا۔اس کے باوجود دو مئی کا ایبٹ آباد ہو کر رہا۔
چنانچہ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ پھر وہ کون سا دشمن ہے جس کے لیے تام توبڑہ جمع کیا گیا ہے۔افغانستان سے آپ کی کبھی بھرپور جنگ نہیں ہوئی نہ افغان فوج مستقبلِ قریب میں آپ کے ہم پلہ ہوگی۔
ایران سے کسی جنگ کا امکان پاکستان کے عسکری نظریے کا کبھی حصہ نہیں رہا ۔بھارت سے چھیڑ چھاڑ تو ہوسکتی ہے لیکن ایٹم بم کی موجودگی میں بھرپور روایتی جنگ بھی ممکن نہیں۔امریکہ کے بارے میں تو آپ خود اعتراف کرچکے ہیں کہ اس سے محدود جنگ بھی وارہ نہیں کھاتی۔چین سے آپ کی کبھی لڑائی ہوگی ہی نہیں۔فاٹا اور بلوچستان کو قابو میں رکھنے کے لیے آپ کو سٹیٹ آف دی آرٹ مہنگے کھلونوں کی ضرورت نہیں ہے۔
غربت ، بے روزگاری ، خود کشی ، کرپشن ، گینگ ریپ، خراب حکمرانی، لوڈ شیڈنگ پولیو، ٹی بی ، احساسِ محرومی جیسے گھٹیا دشمنوں کو آپ نہ تو ایٹم بم سے ملیا میٹ کرسکتے ہیں۔نہ ایم ون ٹینک سے مار سکتے ہیں، نہ ایف سولہ سے اڑا سکتے ہیں اور نہ ہی گن شپ ہیلی کاپٹر سے ختم کرسکتے ہیں۔
جن حقیقی و تصوراتی دشمنوں سے آپ اٹھارہ کروڑ لوگوں کا مسلح تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ان فاقہ مست لرزتے لوگوں کا زندگی پر اختیار لوٹا دیں۔بیرونی تحفظ وہ خود کرلیں گے۔پر اس کے لیے حقائق و ترجیحات میں نیا توازن درکار ہے ۔ ناقابلِ تسخیر بننے کی ہوسِ لاحاصل سے بالکل الگ۔۔۔۔۔۔
زندگی تسخیر نہیں کی جاتی زندگی جی جاتی ہے۔
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................
We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment